Urdu Fiction
Permanent URI for this collection
Browse
Recent Submissions
Item Baba Sahiba(sangemeel publication, 2018) Ashfaq Ahmadبابا صاحبا از اشفاق احمد ایک عمیق اور فکر انگیز کتاب ہے جو انسانی وجود، روحانیت، اور خود شناسی کے مختلف پہلوؤں پر غور کرتی ہے۔ یہ کتاب ایک منفرد اور دلکش انداز میں لکھی گئی ہے، جس میں کہانی سنانے کے ساتھ فلسفیانہ خیالات بھی شامل ہیں۔ اس کتاب میں مصنف نے محبت، ایمان، اور اندرونی سکون کی جستجو جیسے موضوعات پر اپنی ذاتی عکاسیوں اور کہانیوں کے ذریعے روشنی ڈالی ہے، جس سے قارئین کو انسانی حالت کے بارے میں گہرے بصیرت ملتے ہیں۔ اشفاق احمد کی یہ تصنیف اپنی دلنشین نثر اور زندگی کی گہری سچائیوں کو بیان کرنے کے انداز کی وجہ سے اردو ادب میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔Item Man chalay ka sauda(Sang-e-Meel publication, 2018) Ashaf Ahmadمن چلے کا سودا اشفاق احمد کا ایک شاہکار ناول ہے، جو انسان کی روحانی جستجو اور داخلی کشمکش کی کہانی بیان کرتا ہے۔ یہ کہانی ایک نوجوان کی زندگی کے سفر پر مبنی ہے، جو دنیاوی لذتوں سے دور ہو کر روحانی سکون کی تلاش میں نکلتا ہے۔ اشفاق احمد کی گہری بصیرت اور سادہ تحریر قاری کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ "من چلے کا سودا" زندگی کے معنی اور مقصد کو سمجھنے کا ایک عمیق ذریعہ ہے۔ یہ ناول قاری کو روحانی بیداری اور خود شناسی کے سفر کی دعوت دیتا ہے۔Item Zavia 2(Sang-e-meel Publications, 2015) Ashfaq Ahmadزاویہ 2 اشفاق احمد کے مضامین کا دوسرا مجموعہ ہے، جو معاشرتی، اخلاقی، اور روحانی موضوعات پر مبنی ہے۔ یہ کتاب زندگی کے مختلف پہلوؤں پر گہری بصیرت فراہم کرتی ہے، جس میں اشفاق احمد کی حکمت اور سادگی سے بھری تحریریں شامل ہیں۔ ہر مضمون قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے اور خود شناسی کی راہ دکھاتا ہے۔ "زاویہ 2" انسانیت، محبت، اور زندگی کے فلسفے کو سمجھنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ یہ کتاب قاری کو زندگی کی گہری حقیقتوں سے روشناس کراتی ہے۔Item Zavia 1(Sang-e-Meel Publications, 2014) Ashfaq Ahmedزاویہ 1 اشفاق احمد کے لکھے گئے فکر انگیز مضامین کا مجموعہ ہے، جو زندگی کے مختلف پہلوؤں پر گہری بصیرت فراہم کرتا ہے۔ یہ مضامین معاشرتی، روحانی، اور اخلاقی موضوعات پر مبنی ہیں، جو قارئین کو خود شناسی اور انسانی قدروں کی اہمیت سے روشناس کراتے ہیں۔ اشفاق احمد کی سادہ لیکن پُراثر تحریر قاری کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور زندگی کی گہری حقیقتوں کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ "زاویہ 1" زندگی کی بصیرتوں اور خود شناسی کے سفر کا ایک نایاب مجموعہ ہے۔Item زاویہ(2012) Ashfaq Ahmed"زاویہ" اشفاق احمد کی تصنیف ہے جو ان کے ٹیلی ویژن پروگرام "زاویہ" کی گفتگوؤں پر مبنی ہے۔ اس کتاب میں زندگی، معاشرتی مسائل، روحانیت، اور فلسفے پر ان کے خیالات اور تجربات کو پیش کیا گیا ہے۔ کتاب کے مرکزی نکات میں شامل ہیں: خودی کی پہچان: انسان کی حقیقی شناخت اور خودی کی اہمیت۔ خدا کی محبت: خدا سے تعلق اور اس کی محبت کا بیان۔ عشق حقیقی: حقیقی عشق کی فلسفیانہ تشریح۔ روحانیت: روحانی سکون اور اطمینان کی جستجو۔ معاشرتی مسائل: دنیاوی مسائل کے حل کے لیے سادہ اور عملی تجاویز۔ "زاویہ" قاری کو زندگی کے مختلف پہلوؤں پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتی ہے اور ایک نئی سوچ فراہم کرتی ہے۔Item Amar bail | امربیل(Sang-e-Meel, 2017) Bano Qudsiaبانو قدسیہ کی تحریر کردہ "امربیل" ایک ایسی داستان ہے جو قاری کو جذباتی طور پر جکڑ لیتی ہے اور زندگی کی تلخ حقیقتوں سے روشناس کراتی ہے۔ اس ناول میں محبت، قربانی، اور انسانیت کی گہری بصیرتیں پیش کی گئی ہیں، جو قاری کے دل میں ایک گہرا اثر چھوڑ جاتی ہیں۔Item آبِ حیات"(2024) نمرہ احمدآبِ حیات" نمرہ احمد کا ایک مشہور اور دلچسپ اردو ناول ہے۔ یہ کہانی عشق، ایمان، اور زندگی کے مختلف جوابات پر مبنی ہے۔ ناول کی کہانی میں مرکزی کردار فرحان، جو گذشتہ کے بدلے بھیگے پتے چاہتا ہے، اور ایک عورت عائشہ جو اُسے نئی راہ دکھاتی ہے، کے گرد گھومتی ہے۔ اس ناول نے پڑھنے والوں کو اپنی محبت بھری دنیا میں مشغول کیا اور انہیں نویلا کے انتظار میں بھی بھرپور کیا۔Item جنت کے پتے(2012) Nimra Ahmadیہ ناول ایک دلچسپ اور مسلسل کہانی ہے جو عشق، امید، اور انتقام کی داستان کو بیان کرتی ہے۔ اس کے دوران، ایک لڑکی جس کے لیے زندگی کا سفر ایک معمولی سا لگتا تھا، وہ اپنے انتقام کے لیے بڑی بدلتی ہے۔ یہ کہانی مختلف مواقع پر اپنے پر کشش اور گہرائی سے سچائی کا راز خوش آئند انتظامات کے ساتھ پیش کرتی ہے۔Item Bilal ibn Rabah(2002-12) Dr.Muhammad Abdul Raufبلال ابن رباح: ایک انسانیت پر عظمت کی کہانی یہ کتاب بلال ابن رباح کی زندگی اور اس کے حقیقی معنوں کو سامنے لانے کے لیے مخصوص ہے۔ بلال ابن رباح ایک عبد تھے جنہیں اسلام کے عظیم پیغمبر، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، کی دعوت سے رابطہ ہوا۔ اس کے زندگی کا ابتدائی حصہ اس کے قید کے دوران گزرا، جب وہ مشہور اقتصادی اور اجتماعی امیر، ابو بکر، کے ملک میں برآمد ہوا۔ بلال کی انسانیت پر عظمت کی کہانی، اس کے انسانی حقوق کے لئے جدوجہد اور اسلامی اقتدار کے لئے اپنی جان کو دینے کی قوت کو روشن کرتی ہے۔ اس کتاب میں بلال کے سفر کو ایک روشنی کے ذریعے بیان کیا گیا ہے، جس نے اس کو انسانیت کے مختلف پہلووں سے جھلک دینے کا موقع فراہم کیا ہے۔ بلال ابن رباح: ایک انسانیت پر عظمت کی کہانی، علماء اور مطالعہ کنندگان کے لیے ایک موٹیویشنل اور علمی کتاب ہے جو تاریخی حقائق کو ایک دلچسپ طریقے سے پیش کرتی ہےItem محبت دل پہ دستک(Daniyal, 2015) Iffit Sehar Tahir"محبت دل پہ دستک" افتتاح سحر طاہر کا ایک رومانوی ناول ہے جو عشق، رشتے اور گزرے ہوئے واقعات کے اثرات پر مبنی ہے۔ اس ناول کی کہانی کی مرکزی کردار ہے محم، جو اپنی زندگی میں مختلف چیلنجز اور دل توڑنے والے واقعات کا سامنا کر چکی ہے۔ وہ ایک شخصیت ہے جو اپنے ماضی کے آثار کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے۔Item Raja Gidh(Sang-e-Meel, 1981) Bano Qudsiya"راجہ گدھ" بانو قدسیہ کے لکھے گئے اردو ادب کے اہم ناولوں میں سے ایک ہے، جو محبت، اخلاقیات اور سماجی اصولوں کے پیچیدہ تعلقات کو بیان کرتا ہے۔ پاکستانی معاشرت کے پس منظر میں سیٹ، یہ کہانی اپنے کرداروں کے تجربات کے ذریعے انسانی رویے کے نفسیاتی اور فلسفیانہ پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار قیوم ہے، جو ایک حساس اور خود اندیش شخص ہے، جو یونیورسٹی کی طالبہ سیمی شاہ سے متاثر ہو جاتا ہے۔ سیمی کی یک طرفہ محبت، جو آفتاب نامی ایک اور طالب علم کے لیے ہے، ان سب کی زندگیوں میں ایک سلسلہ وار واقعات کو جنم دیتی ہے۔ سیمی کے لیے قیوم کی بے جواب محبت اسے جنون اور اخلاقی زوال کی راہ پر ڈال دیتی ہے، جو ناول کے مرکزی موضوع "حرام" اور "حلال" محبت کی عکاسی کرتا ہے۔ مرکزی پلاٹ کے ساتھ ساتھ "راجہ گدھ" کی تمثیلی کہانی بھی ہے، جو غیر اخلاقی انتخاب کے نتائج اور اس کے بعد آنے والی روحانی زوال کی عکاسی کرتی ہے۔ اس تمثیل کے ذریعے، بانو قدسیہ بے لگام خواہشات اور اخلاقی حدود کی خلاف ورزی کے اثرات کو فرد اور معاشرت دونوں پر جانچتی ہیں۔ "راجہ گدھ" صرف ایک محبت کی کہانی نہیں ہے؛ یہ انسانی فطرت کی گہری تحقیقات ہے، جو ذہنی صحت، روحانی تنازع، اور سماجی دباؤ جیسے مسائل کو چھوتی ہے جو ہمارے فیصلوں کو تشکیل دیتے ہیں۔ بانو قدسیہ کی کہانی سنانے کی ماہرانہ صلاحیت اور گہری فلسفیانہ بصیرت اس ناول کو اردو ادب کا سنگ میل بناتی ہے، جو قارئین کو اخلاقی حدود کی خلاف ورزی کے حقیقی نقصان اور ممکنہ نجات پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔Item لا حاصل | La hasil(Ilm-O-Irfan, 2022) Umera Ahmedلا حاصل" امیر گھرانے کی زندگی کو نمایاں کرتی ہے جہاں عمران اور صدف کے درمیان ایک غلط فہمی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ صدف کو امران کی زندگی کی آرزو ہوتی ہے، جبکہ امران اپنے آرزو کو پورا کرنے کی کوشش میں ہر ممکن قدم اٹھاتا ہے۔ ان کی کہانی میں احساسیت، محبت، اور شخصی تربیت کے مسائل پر زور دیا گیا ہے، جو ان کے رشتے اور زندگی کے اندر کشش اور جذباتی پردہ بھی ظاہر کرتا ہےItem Jannat k patay(2024) Nimra Nhmad"جنت کے پتے" ایک اردو ناول ہے جسے نمرہ احمد نے لکھا ہے۔ یہ کہانی ایک خوبصورت اور معمولی لڑکی کے حالات و شرایط کو گہرائی سے پیش کرتی ہے جو اپنے عشق کی تلاش میں رہتی ہے۔ یہ ناول احمدیت کے ساتھ ہے جو اسے اپنی زندگی میں روشنی پہنچاتی ہے، محبت، حیات اور دینیات کے مختلف پہلوؤں پر غور کرتا ہے۔Item Pir-e-Kamil(Ferozsons, 2004) Umera AhmadThe story's protagonist, Imama Hashim, belongs to an influential Ahmadiyya Muslim family living in Islamabad. She decides to convert to Sunni Islam after being influenced by her friends. She attends her senior shabiha's lectures in secrecy from her family and her roommates, Javeria and Rabia. While studying in a medical school in Lahore, she falls in love with her friend Zainab's elder brother, doctor Jalal Ansar. But Imama's family tries to coerce her into marrying her first cousin Asjad, which is unacceptable to her, her parents respond by grounding her and taking away her cellphone. Imama seeks help from Salar whom she is antagonistic with since she is a religious girl and Salar is not. He is a rich, eccentric boy, obsessed with suicide and a sick question: "what is next to ectasy?". He is also a genius with an IQ level above 150 and a photographic memory. Imama wishes to marry Jalal, but Salar lies to her that Jalal has married someone else. Imama is saddened and asks Salar to marry her so that her family will not be able to force her. Salar helps her but only for his own amusement in adventures and marries her, but soon after loses contact with her. Imama finds a sanctuary under Sibt-e-Ali and his family. She changes her name and completes her studies and starts working in a pharmaceutical company in Lahore. She hates Salar because he refused to divorce her as he had promised. Salar later travels to New Haven for education. There, Imama kept haunting his conscience. After a near death experience at Magala hills, he promises to correct his mistakes and walk on the right path. He tries to find Imama but fails, he also feels great guilt in himself but later realizes that is actually love. Unable to find Imama, he then works for United Nations for some time before permanently settling in Lahore. Due to some circumstances, he had to marry a girl he had never seen before, he agrees to marry her but when he sees her for the first time, he recognizes her as Imama. Salar confesses his feeling to her and she embraces and forgives him. Later, the scene shifts near to Kaaba, where Salar and Imama are sitting together worshipping God.Item سندباد جہازی|Sindbad Jehazi(2013) Mohammad Saleem Ur Rehmanمجموعہ داستانوں کا انعقاد ہمیشہ سے پڑھنے والوں کے لیے دلچسپ ہوتا آیا ہے۔ اسی طرح، "سندباد جہازی" بھی ایک ایسی داستان ہے جو دل کش ماحول کو بناتی ہے۔داستان کے مصنف، شیخ سدوی، نے ایک شیرنامہ معاصر نوجوانوں کے لیے لکھی ہے جس میں ہمیں مختلف کردار دکھائے جاتے ہیں جن کے کامیابی اور ناکامی کے واقعات دکھائے جاتے ہیں۔اس کہانی کے مرکز میں سندباد نامی ایک تجارتی جہازی ہے جو سب سے بڑا سفر کرتا ہے۔ وہ اپنے سفر کے دوران کئی سختیوں کا سامنا کرتا ہے اور اپنے دوستوں کی مدد کرتا ہے جو اسے اپنے سفر میں ملتے ہیں۔یہ کہانی ہمیں زندگی کے مختلف جہتوں سے بخشی ہے۔ یہ ہمیں دوستوں کی اہمیت کی طرف بلاتی ہے جبکہ اس میں ہمیں تجارت اور سفر کے حوالے سے بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔داستان میں سب سے دلچسپ حصہ یہ ہے کہ سندباد کی جہاز کے بنائے کے بارے میں بہت کچھ بتایا جاتا ہے۔ اسے تجارت کی دنیا کے لیے کتنا اہمیت رکھتا ہےItem علی بابا چالیس چور | Ali baba 40 chor(Educational publishing house, 2004) Javed, Muhammadعلی بابا چالیس چور، جنوبی ایشیا کی بہت مشہور کہانیوں میں سے ایک ہے جسے سلطنتی دور میں شاہی عائلہ کے محبوب کہانیوں میں شامل کیا جاتا ہے۔ یہ کہانی مشہور اردو کہانیوں میں بھی پڑھی جاتی ہے اور اس کا نام علی بابا چالیس چور ہے۔ اس کہانی کے مصنف اور ترجمہ کار لطف اللہ نے بہترین طریقے سے اس کہانی کے ماہرین کے بیان کو نقل کیا ہے۔ یہ کہانی اردو زبان میں اس لئے بہت پسند کی جاتی ہے کہ اس کہانی کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے اور اس کے علاوہ، اس کہانی کے کچھ حصوں کو بہتری سے سمجھا جا سکتا ہے۔ علی بابا چالیس چور کی کہانی چالیس چوروں کے بارے میں ہے جو ایک غار میں چھپے ہوتے ہیں۔ علی بابا بھی اس کا پتہ لگا لیتا ہے اور وہ اس غار کو کھولتا ہے۔ اس کہانی کے دوران، علی بابا کے دشمن اسے ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مصنف نے علی بابا کی کہانی کو بہترین طریقے سے پیش کیا ہے۔ وہ اس کہانی کے حصوں کو بہتری سے سمجھا سکتے ہیں جس سے کہانی کا مزہ بڑھ جاتا ہے۔ ع